تمام معالجین اور ماہرین طب اس بات پر متفق ہیں کہ ماں کا دودھ بچے کیلئے ایک مکمل غذا ہے اور بوتل کے دودھ کو اس کے مقابلے میں کسی طور پر بھی اہمیت و اوّلیت نہیں دی جا سکتی۔ ماں اور بچے کارشتہ سب سے مضبوط رشتہ ہے۔ یہ خونی، خاندانی، فعلیاتی، دماغی و جذباتی اور کیمیائی رشتہ ہے۔ بقائے حیاتِ انسانی کا تقاضا ہے کہ اس رشتے کو ماں اپنا دودھ پلا کر قائم و سلامت رکھے۔ ماں کا بچے کو دودھ پلانا فطرت کے عین مطابق ہے کیونکہ بچے کو دودھ میں وہ تمام اجزا مل جاتے ہیں جو اس کی ساخت اور نشوونما کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے اور حکم ربی بھی:
”اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔“ بچے کی پیدائش کے پہلے 4 تا 6ماہ، ماں کا دودھ ہی اس کی مکمل غذا ہے۔ اس دوران یہ دودھ بچے کی پیاس بھی بجھاتا رہتا ہے۔ لہٰذا بچے کو مزید پانی یا چینی والا پانی یا شربت وغیرہ دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ماں کے دودھ کے فوائد
ماں کے دودھ میں وہ جراثیم نہیں ہوتے جو گائے بھینس کے دودھ میں ہو سکتے ہیں۔ ماں کے دودھ میں آمیزش کا شک بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ براہ راست ماں کے جسم سے بچے کے منہ میں جاتا ہے جس سے فضا کی آلودگی، ملاوٹ، گندگی وغیرہ کا خدشہ بھی نہیں رہتا۔
٭ ماں کے دودھ میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو بچے کو ہیضہ، پولیو اور انفلوئنزا جیسی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے کی صحت بھی بہتر رہتی ہے۔
٭ بچہ، ماں کا دودھ بآسانی ہضم کر سکتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے سے بچے کو قبض بھی نہیں ہوتا جب کہ گائے کا دودھ بچے کی آنتوں میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ بچے کو ہاضمے کی خرابی میں بھی ماں کا دودھ ہی دیا جاناچاہیے۔
٭ ماں کا دودھ، پانی کی طرح قدرت کا عطیہ ہے۔ اس پر کچھ خرچ نہیں آتا۔ بچہ جتنا دودھ پیتا جائے گا، قدرت کی طرف سے اتنا ہی دودھ بنتا چلا جائے گا۔ ماں کا دودھ بچے کیلئے ناکافی کبھی نہیں ہوتا بلکہ بچے کو باربار دودھ پلانے سے ماں کو یہ نعمت اور زیادہ ملتی ہے۔ یہ تحفہ قدرت بچے کو ہر وقت دستیاب ہے۔ کسی قسم کے ہنگامی حالات، ہڑتال وغیرہ اس پر اثر نہیں رکھتے۔
٭ ماں کے جسم میں موجود اینٹی باڈیز اجزا بچے کے جسم میں منتقل ہو کر اسے بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور دوسری طرف بچہ براہ راست ماں کا دودھ پینے سے پانی اور برتنوں کی آلودگیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
٭ قدرت کا نظام اتنا جامع، مکمل اور فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے کہ اس نے انسانی ضرورت کی تیاری اس انداز سے کی ہے کہ وہ بچے کی بدلتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ ابتدائی عمر کے جس جس حصے میں پرورش پاتے بچے کو جس چیز کی ضرورت ہو، ماں کا دودھ اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اور بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتا ہے۔ یوں بچے کی نشوو نما کے مطابق یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ دودھ میں پروٹین اور معدنیات کی مقدار خود ہی متوازن رہتی ہے۔
٭ قدرت نے بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ماں کے دودھ کو ایک خاص چیز عطا کی ہے جس کو کولسٹرم (Coulstrum) کہتے ہیں۔ یہ بچے کے پیٹ میں پہلا فضلہ بڑی خوبی سے خارج کر دیتا ہے۔ یہ بیماری کے خلاف قدرت کا پہلا قلعہ ہے جو اس کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ پھر انسانی دودھ بچے کو پولیو، فلو، نزلے اور زکام سے بھی بچاتا ہے۔
بوتل کا دودھ
گائے کے دودھ یا فارمولا دودھ میں فولاد ملی پروٹین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور سوڈیم اور پوٹاشیم کی مقدار بہت زیادہ، جس سے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً بچے کو دودھ ہضم کرنے میں دشواری اور رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ سوڈیم کی زیادتی سے بچہ پیاس محسوس کرتا ہے اور یوں گردے کی تکلیف میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
٭ ڈبے کا دودھ پینے والے بچوں کیلئے بیماریوں کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ بوتل کے ذریعے سے بچوں کو دودھ پلانے سے دست کی بیماری، کھانسی، زکام اور دیگر خطرناک بیماریاں لگ جاتی ہیں جس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔
٭ ہمارے ہاں حفظ صحت کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔
٭ ہر بار بوتل اور نپل کو ابلے ہوئے پانی میں دھو کر صاف نہیں کیا جاتا۔
٭ ہمیں اس امر کا بخوبی اندازہ نہیں کہ بچے کو کتنی مقدار میں دودھ درکار ہے۔ پھر دودھ میں پانی کس مقدار سے ملانا ہے۔
٭ گائوں کی سطح پر اور اکثر شہروں میں بھی صاف پانی میسر نہیں ہوتاہے۔
٭ جن برتنوں میں گائے کا دودھ یا پائوڈر کا دودھ تیار کیا جاتا ہے انہیں جراثیم سے پاک نہیں کیا جاتا۔
٭ دودھ بناتے وقت پانی کو ابال کو استعمال نہیں کیا جاتا۔
٭ اکثر مائیں ڈبے کا دودھ تیار نہیں کر سکتیں۔ ڈبے پر لکھی ہدایات کو نہ تو پڑھ سکتی ہیں اور نہ سمجھ سکتی ہیں۔
٭ بچے کو دودھ پلانے کی صحیح مقدار کا اندازہ بھی اکثر مائوں کو نہیں ہوتا۔
٭ دودھ تیار کرنے والی مائیں خود صاف نہیں ہوتیں۔ اکثر دیہات کی سطح پر یا ناخواندہ مائیں اپنے ہاتھوں کی صفائی کا بھی خیال نہیں رکھتیں۔
ماں کے دودھ کے دیگر فوائد
غذائی ضروریات کی تکمیل اور نشوونما کے علاوہ بچے کو ماں کا دودھ پلانے کے کئی اور فائدے بھی ہیں۔ مثلاً ماں کا دودھ پینے سے بچے کے جبڑے صحیح طور پر بنتے ہیں جس سے اسے بولنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسے بچوں کو الرجی اور موٹاپا بھی نہیں ہوتا۔ ایسے بچوں کے دانت مضبوط ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والا ایسا بچہ، دودھ پینے کے دوران ناک سے سانس لیتا ہے جس سے اس کے جبڑوں، ناک اورتالو کی نشوونما پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بوتل سے دودھ پلانے سے بچے کو دودھ بغیر کسی کوشش کے مل جاتا ہے۔ اس طرح بچے کے چہرے اور گردن وغیرہ کے عضلات ورزش نہیں کر پاتے۔ یوں بچے کے ناک، منھ، تالو، زبان، نچلے اور اوپر کے جبڑے کی ساخت میں خامیاں رہ جانے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے جس کا دانتوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ ایسے بچے ناک، کان، حلق کی بیماریوں کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔
یاد رکھنے کی باتیں
پہلے چار یا چھ ماہ کی عمر کے دوران ماں کا دودھ ہی بچے کی بہترین غذا ہے۔
٭ پیدائش کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، بچے کو ماں کا دودھ پلانا شروع کر دینا چاہیے۔
٭ ہر ماں عملی طور پر بچے کو دودھ پلا سکتی ہے۔
٭ بچے کو بار بار دودھ پلانے سے ماں کے دودھ میںاضافہ ہو جاتا ہے۔
٭ بوتل کے ذریعہ سے دودھ پلانے سے بچے کے بیمار ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
٭ اگر ممکن ہو تو بچے کو ماں کا دودھ دو سال کی عمر تک مسلسل پلانا چاہیے۔
٭ ماں کے دودھ پر بچے کا پیدائشی حق ہے، اسے اس حق سے محروم نہ کریں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 728
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں